بانی جامعہ شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتوی صاحبؒ
آپ کا نام نصیرالدین صاحب غورغشتوی رحمہ اللّٰہ ، والد کا نام مولانا بہاؤالدین ؒاور دادا کا نام مولانا سعدالدینؒ تھا، آپ کا خاندانی تعلق افغان کے کاکڑ قبیلے سے تھا، آبائی وطن قندھار، افغانستان تھا اور جائے پیدائش گاؤں غورغشتی، ضلع اٹک تھی۔
ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا شہاب الدین صاحبؒ سے حاصل کی پھر مکمل تعلیم اس کے بعد صرف و نحو کی کچھ کتابیں ضلع اٹک کے گاؤں “سرویہ” میں پڑھیں۔سرویہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ فنون کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملتان “لمے” تشریف لے گئے اور وہاں رہ کر فنون کی اعلی تعلیم حاصل کی۔ملتان سے فارغ ہونے کے بعد فنون کی تکمیل کے لیے اٹک کے ایک گاؤں “نوتھیہ” تشریف لے آئے جہاں آپ کے والد محترم کے شاگرد حضرت مولانا غلام رسول صاحبؒ مدرس تھے جو کہ فنون میں مہارت ِتامہ رکھنے والی شخصیت تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو فنون کے علم سے خوب نوازا تھا، حضرت مولانا غلام رسول صاحب رحمہ اللہ کو جب علم ہوا کہ ان کے استاذِمحترم کے صاحب زادے حصول علم کے لیے ان کے ہاں تشریف لائے ہیں، تو انہوں نے مولانا نصیرالدین صاحب کا والہانہ خیر مقدم کیا اور گھر کا فرد بنا کر رکھا، نحو، منطق، معانی وغیرہ فنون کی تکمیل یہیں رہ کر فرمائی، آپ کے استاذ مولانا غلام رسول صاحب رحمہ اللہ آپ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے؛
مولوی نصیرالدین نہایت ذکی و ذہین ہے۔ “نوتھیہ” میں فنون کی تکمیل یعنی علوم آلیہ کی تکمیل کے بعد آپ علوم عالیہ کی تکمیل کے لیے اپنے وقت کے مشہور محدث ،جامع الکمالات ، شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی قمر الدین صاحب چکڑالوی رحمہ اللہ کی خدمت میں چکڑالہ ضلع میانوالی میں حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں رہ کر حدیث شریف کا علم حاصل کیا اور دورۂ حدیث شریف کی تکمیل فرمائی۔
دورۂ حدیث کرنے کے بعد شیخ الحدیث صاحبؒ اپنے گاؤں تشریف لائے اور اپنی آبائی مسجد، مسجد کھجور والی غورغشتی میں تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا کچھ عرصہ یہاں صرف، نحو اور معانی وغیرہ علوم آلیہ کی تدریس فرمائی۔ (شروع میں علوم آلیہ کی طرف توجہ زیادہ تھی اور پڑھانے میں کمال کا ملکہ حاصل تھا لیکن بعد میں صرف حدیث شریف کے ہی ہو کر رہ گئے۔)پھر حضرت مولانا سلطان محمود صاحب ؒ آف نوتھیہ کے توسط سے رنگون تدریس کی غرض سے تشریف لے گئے جہاں ان کے بھتیجے حضرت مولانا قطب الدین صاحبؒ پہلے سے تدریس فرما رہے تھے، وہاں کچھ عرصہ تدریس کرتے رہے، لیکن وہاں پوری طرح سے دل جمی حاصل نہ ہو سکی لیکن کچھ اعذار کی وجہ سے وہاں کچھ عرصہ مقیم رہے چنانچہ ارشاد فرمایا: رنگون میں مکتبہ بہت بڑا تھا جس کی وجہ سے میرے علم کو جلا مل رہی تھی اور کچھ قرض تھا جس کی وجہ سے وہاں رکا رہاچنانچہ جب قرض وغیرہ ختم ہو گیا تو وہاں سے حج کے لیے روانہ ہو گئے، آپ کا یہ پہلا حج تھا جو سلطان عبد الحمید کے زمانے اور جنگ عظیم اول کے زمانے میں رنگون سے ادا کیا۔حج سے فارغ ہونے کے بعد کچھ عرصہ مکہ مکرمہ ہی میں قیام فرمایا اور تدریس میں مشغول رہے، حضرت کا ارادہ یہی تھا کہ اب مکہ مکرمہ ہی میں مقیم رہوں گا اور یہاں ہی تدریس کے فرائض سر انجام دیتا رہوں گا لیکن صحت کی خرابی کی وجہ سے وہاں سے بھی گاؤں آنا پڑا اور کچھ عرصہ کے بعد گاؤں تشریف لے آئے، فرمایا : مکہ مکرمہ سے آنے کے بعد میں پریشان رہتا تھا کہ وہاں سے مجھے آنا نہیں چاہیے تھا، اس وقت اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی لیکن اب سمجھ میں آگئی کہ وہاں حدیث شریف کا کام کرنے والے تو بہت تھے اللہ تعالی نے مجھ سے یہاں حدیث شریف کی خدمت کا کام لینا تھا چونکہ یہاں حدیث شریف کی خدمت کا کام کرنے والا اس وقت کوئی نہیں تھا۔ پشتو زبان میں حضرت نے ہی سب سے پہلے حدیث شریف کا درس شروع فرمایا تھا آپ سے پہلے صرف پشتو میں فنون ہی کی تدریس کا رواج تھا۔مکہ مکرمہ سے جب گاؤں آنے کا ارادہ فرمایا تو پہلے رنگون تشریف لائے اور وہاں سے گاؤں آتے ہوئے راستے میں دیوبند اترے اس ارادے سے کہ یہ بڑی جگہ ہے یہاں سے بھی فیض حاصل کرتا جاؤں اس وقت وہاں پر تدریس کے فرائض شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن صاحب دیوبندی ؒ انجام دے رہے تھے ، شیخ الہند صاحب نے حضرت سے داخلہ ٹیسٹ لیا اور فرمایا : طالب علم لائق معلوم ہوتا ہے اور داخلہ دے دیا، کچھ عرصہ دیوبند میں رہ کر حضرت شیخ الہند صاحب ؒ سے شرفِ تلمذ حاصل کیا اور پھر ہمیشہ کے لیے گاؤں میں رہنے کے ارادے سے گاؤں تشریف لے آئے۔
یہیں سے حضرت کا وہ سنہرے دور شروع ہوتا جو تقریباً 50 سال کے عرصے پر محیط ہے جس میں پشتو زبان بولے جانے والے علاقوں میں حضرت نے قال اللہ، قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائیں بلند فرمائیں، اور پشتو زبان بولنے والوں کی توجہ حدیث شریف کی طرف فرمائی، جب پشتو زبان میں حدیث شریف و تفسیر پڑھانے کی خبر پھیلی تو تشنگانِ علوم قرآن وحدیث غورغشتی کی جانب آنا شروع ہوگئے اس دور میں 60 سے 150 تک طلبہ دورۂ حدیث شریف میں مختلف سالوں میں رہتے تھے خود ہی ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ تقریباً پانچ ہزار طلبہ نے مجھ سے علم حدیث حاصل کیا، حضرت تقریباً 50 سال تک حدیث شریف کا درس دیتے رہے اور یہ خدمت بغیر کسی معاوضے کے انجام دیتے رہے۔
بلا مبالغہ آج پشتو زبان بولی جانے والے علاقوں میں جہاں بھی حدیث شریف کا علم دیا جا رہا ہے وہ حضرت ہی کی برکات ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس خدمت کا اجر عظیم عطا فرمائیں اور ان کی اس خدمت کو قبول فرمائیں۔
حضرت کے حدیث شریف کے استاذ حضرت مولانا قاضی قمر الدین صاحب رحمہ اللہ کا بیعت و اصلاح کا تعلق حضرت خواجہ سراج الدین صاحب ؒموسی زئی شریف والوں سے تھا، تو اسی بناء پر حضرت نے بھی اپنا اصلاحی تعلق حضرت خواجہ سراج الدین صاحب ؒسے قائم فرمایا اور ان کے ہاتھ پر سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت فرمائی لیکن چونکہ حضرت خواجہ صاحب کا انتقال جوانی میں ہی ہو گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے خواجہ صاحب کو چھوٹی سی عمر میں بہت ساری صفات سے نوازا تھا، اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔
لہٰذا زیادہ دیر تک ان سے اصلاحی تعلق قائم نہ رہ سکا تو ان کی وفات کے بعد حضرت فرماتے تھے دو شخصیات میں سے کسی ایک سے بیعت ہونے کو جی چاہ رہا تھا ایک حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ اور ایک رئیس المفسرین حضرت مولانا حسین علی صاحبؒ واں بھچراں لیکن قریب ہونے کی وجہ حضرت خواجہ سراج الدین صاحبؒ کے خلیفہ اجل اور اپنے تفسیر کے استاذِ محترم حضرت مولانا حسین علی صاحب ؒ واں بھچراں والوں کے ہاتھ پر بیعت ہونے کا ارادہ فرمایا اور ان سے بیعت فرمائی، اور وقتاً فوقتاً اپنے شیخ کی خدمت میں رہ کر خوب فیض حاصل کیا، ابتداء میں اپنے مرشد کے پاس خاصا قیام فرمایا کرتے تھے اور پھر تقریباً ۳۵ برس مسلسل حاضری دیتے رہے، حضرت کے شیخ کو حضرت سے بڑا انس تھا ایک مرتبہ یہاں تک فرمایا:خدا نے پوچھا اپنے ساتھ کون سا سرمایہ لائے ہو تو مولوی نصیرالدین کو پیش کر دوں گا۔
ایک مرتبہ حضرت ؒنے حسبِ معمول اپنے شیخ کی خدمت میں حاضری دی تو آپ کے شیخ نے آپ سے فرمایا: چل مولوی نصیرالدین میں نے تجھے ہر شے میں اجازت دی۔
اور پھر ۴ ذو القعدہ ۱۳۸۸ھ مطابق 23 جنوری 1969ء کو ہمیشہ کے لیے اپنے رب کی آغوشِ رحمت میں جگہ پائی، اپنی جائے پیدائش گاؤں غورغشتی، ضلع اٹک میں مدفون ہوئے۔