Open Menu

مختصرحالات ِ زندگی جانشینِ شیخ الحدیثؒ حضرت مولانا محمد ابراہیم جی صاحبؒ

آپ کانام محمد ابراہیم،والد کا نام شیخ الحدیث مولانا نصیرالدین غورغشتویؒ، دادا کا نام استاذ العلماء مولانا بہاؤالدین صاحبؒ تھا ، آپ کا خاندانی تعلق افغانستان کے کاکڑ قبیلے سے تھا، آبائی وطن قندھار افغانستان تھا، جائے پیدائش گاؤں غورغشتی ضلع اٹک تھی، آپ کی سن پیدائش تقریبا ۱۹۲۵ء تھی۔

ابتدائی تعلیم، ناظرہ قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی کتب والد گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتوی صاحبؒ سے پڑھیں، اس کے بعد مزید حصول ِتعلیم کے لیے اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا ٖفخر الدین صاحب کے ساتھ امرتسر تشریف لے گئےاور وہاں آپ نے ولی وقت خلیفہ حضرت تھانویؒ حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحبؒ امرتسری بانی جامعہ اشرفیہ لاہور سے گلستان وغیرہ فارسی کی کچھ ابتدائی کتب پڑھیں(حضرت مفتی صاحب اس وقت بڑی کتب کی تدریس فرماتے تھے لیکن آپ پر شفقت فرماتے ہوئے آپ کو ابتدائی کتابیں خود پڑھائیں اور بعد میں اپنے بیٹے حضرت مولانا ولی اللہ صاحبؒ کو بھی آپ کے ساتھ درس میں شریک کر لیا۔

پھر اس دوران آپ بیمار ہوگئے اور امر تسر مزید تعلیمی سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے اور وطن واپس لوٹ آئے۔

اس کے بعد کچھ عرصہ تک تعلیمی سلسلہ موقوف رہا اور اس کے بعد جب اللہ تعالی نے آپ کو صحت سے نوازا تو آپ نے تعلیمی سلسلے کو دوبارہ شروع فرمایا اور اپنے والد گرامی شیخ الحدیث ؒ کے درس میں شریک مولانا شہزادہ صاحبؒ المعروف لخاربابا آف سوات سے صرف و نحو کی کتابیں شروع فرمائیں اور اسی دوران ساتھ ساتھ اپنے والد ماجد شیخ الحدیثؒ سے صرف میر، الفیہ اور شرح جامی کا کچھ حصہ پڑھا۔

اس کے بعد عربی ادب میں مہارت حاصل کرنے کےلیے اپنے والد ماجد شیخ الحدیثؒ صاحب  کے شاگر مولانا عبدالحق صاحب  آف منگل چائی کے پاس تشریف لے گئے اور وہاں تقریبا تین سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے اور اس کے بعد مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تشریف لے گئے اور وہاں حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ بونیری فاضل دارالعلوم دیوبند سے سراجی، حسامی اور ہدایہ اولین پڑھیں۔

پھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے علاقہ کی مشہور درسگاہ کنواں میاں صاحبؒ حضرو میں اپنے وقت کے ماہر مدر س جامع العقول و المنقول شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القدیر صاحب مومن پوری فاضل ڈابھیل سے منطق کی بڑی کتابیں سلم ، حمد اللہ اور قاضی مبارک وغیرہ اور اس کے علاوہ شرح عقائد اور ہدایہ آخرین پڑھیں، اس دوران آپ کے ساتھ حضرت مولانا عبد الرحمن صاحبؒ بن شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحنان صاحبؒ تاجک اٹک ، حضرت مولانا غلام یحیٰ صاحبؒ نرتوپہ اٹک اور حضرت مولانا غلام یحیٰ صاحب ہزارویؒ سابق صدر مدرس جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم شریک درس تھے۔

پھر ہدایہ آخرین کا کچھ حصہ ، جلالین شریف ، بیضاوی شریف  اور مشکوۃ شریف اپنے والد محترم حضرت شیخ الحدیث صاحب ؒ سے پڑھیں پھر اس کے بعد دورہ حدیث تقریبا ۱۹۵۶ء یا ۱۹۵۷ء میں اپنے والد ماجد شیخ الحدیث صاحبؒ کے پاس پڑھا ، جس سال آپ کا دورہ تھا اس سال زیادہ طلبہ افغانستان اور بلوچستان کے تھے، آپ کے دورہ حدیث کا سال بڑا مشہور تھا، آپ کے ساتھی اس دورہ حدیث کو دورہ ابراہیمی سے بھی یاد کرتے تھے۔

آپ نے طالب علمی کے زمانے میں ہی اپنے والد ماجدؒ سے بیعت کر لی تھی اور سلسلہ نقشبندیہ کے اسباق والد صاحب کی نگرانی میں شروع فرمادیئے تھے، تقریبا پندرہ سال تک آپ اسباق پورے کرتے رہے اور اسباق کے پورا ہونے پر آپ کو شیخ الحدیث صاحبؒ کی طرف سے خلافت سے نوازا گیا،آپ خود فرماتے تھے کہ جس وقت والد ماجد نے مجھے خلافت عطاء کی تو ساتھ یہ بھی فرمایا: ” میرے بڑے خلفاء سے بھی اصلاح کرواتے رہنا اور اپنی اصلاح سے کبھی غافل نہ ہونا”۔  آپ  اپنے والد ماجدؒ کی نصیحت پر ساری عمر عمل کرتے رہے اور حضرت کے خلفاء سے بھی فیض حاصل کرتے رہے۔

شیخ الحدیث صاحب ؒ کی وفات پر  آپ کو حضرت کا جانشین مقرر کیا گیا، آپ کے مریدین کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔

آپ کے دورہ حدیث کرنے کے بعد آپ کے والد ماجد شیخ الحدیث صاحبؒ نے اپنے ضعف کی وجہ سے اپنی آبائی مسجد(جامع مسجد کھجور والی) کی امامت آپ کے حوالے کی اور شیخ الحدیثؒ صاحب نے اپنا ایک چغہ جس کو پہن کر حضرتؒ سردیوں میں نماز پڑھایا کرتے تھے آپ کے حوالے کیا ( اس مسجدمیں آپ کے آباؤ اجداد کئی سوسال تک امامت، درس و تدریس اور تصوف کا کام سرانجام دیتے رہے)  اور آپ سالہا سال (تقریبا ۶۰ سال)  تک امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے  اور ساتھ ساتھ درس قرآن و حدیث  اور جامعہ دار العلوم نصیریہ غورغشتی کے اہتمام کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے

اللہ تعالی نے حضرت جی صاحبؒ کو  دین کی خدمت اور اصلاحِ امت کے لئے طویل عمر عطا فرمائی تھی آپ بالآخر بروز منگل ۰۳/اکتوبر/ ۲۰۱۷ء رات تقریبا پونے دس بجے سورہ یس کی آیتیں پڑھتے ہوئے اور کلمہ شریف کا باآوازِ بلند ورد کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔

نماز جنازہ ۰۳/ اکتوبر/ ۲۰۱۷ء بروز بدھ بعد از نماز ظہر ادا کی گئی، ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی جس میں علماء اور طلباء کی کثیر تعداد تھی۔ آپ کی نماز جنازہ  آپ کے پوتے مولانا محمد اسامہ صاحب (نائب مہتمم جامعہ دارالعلوم نصیریہ غورغشتی) بن حافظ محمد زبیر صاحب مدظلہ نے پڑھائی۔آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتویؒ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)

چیٹ اوپن کریں
مدد چاہیئے ؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ہمارے ادارے سے متعلق کسی قسم کی معلومات کے لیے بزریعہ واٹس ایپ رابطہ کریں۔