شیخ المشائخ، استاد العلماء ، حاملِ نوائے شریعت، عالمِ اسرارِ طریقت، عالمِ باعمل، حبیرِ بے بدل، رونقِ دوراں، شفیقِ اہلِ زماں، زبدۃ العلماء، سر تاج اولیاء، مخدومِ جہاں، شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا العلامہ نصیر الدین غورغشتویؒ علاقہ چھچھ ضلع کیملپور(اٹک) کے مبارک حالات کے بارہ میں مجھ جیسے نادان و ہیچمدان کو کچھ لکھنے کا کیا حوصلہ ہوسکتا ہے، “ترجمانِ اسلام” جو جمیعۃ علمائے اسلام پاکستان کا ترجمان ہے، حضرت کے سلسلہ میں نمبر شائع کر رہا ہے، اس کے مدیر کا اصرار ہے کہ میں بھی اس سعادت میں شریک ہو جاؤں، بنابریں چند سطور لکھ کر حضرتؒ کے خدام اور نام لیواؤں کی فہرست میں نام درج کرتا ہوں۔
حضرت شیخ الحدیثؒ سے تعارف
حضرت کا نام نامی و اسم سامی ایسا نہ تھا جس سے اہلِ ملک ناآشنا ہوں مگر مجھے جو شرفِ ملاقات اور بالمشافہ فیض مکالمہ نصیب ہوا وہ جمیعت علمائے چھچھ کے جلسوں کی برکت سے ہے۔
اس وقت چھچھ، چھچھ تھا، علم کا گہوارہ، عمل کا مظہر، اس علاقہ میں جمیعت علمائے اسلام کے صدر حضرت مولانا محمد عمر صاحب مد ظلہ ویسہ کیملپور اور ناظم حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب ویسہ کیملپور تھے، باقی سب علمائے چھچھ اس کے مفتی، رکن اور معاون تھے، سب کی سرپرستی مخدوم شیخ مولانا نصیرالدین صاحبؒ فرماتے رہے اور ناممکن تھا کہ علمائے کرام کا اجتماع ہو اور جمیعت علمائے اسلام کا اجلاس ہو اور اس میں حضرت شیخ موجود نہ ہوں۔
آج ۱۳۸۹ھ سے تقریبا ۳۵ سال قبل انہی جلسوں میں جانے کی وجہ سے مجھے نادیدہ مخدوم کی زیارت حاصل ہونے لگی، وہاں میری تقریریں پشتو زبان میں ہوتی تھیں اور اس وجہ سے حضرت دوہری شفقت و محبت فرمایا کرتے تھے ، آپ کو یہ بات بڑی پسند تھی کہ پٹھانوں کو پشتو زبان میں خطاب کیا جائے، اب مجھ پر حضرت کی نگاہِ شفقت زیادہ پڑنے لگی، ظاہری الطاف کے سوا باطنی توجہات بھی فرماتے، دعائیں دیتے اور مرزائیت و الحاد نیز انگریزی اقتدار کے خلاف سرگرمیوں کے لیے ہمت افزائی فرماتے۔
ہمارا ذہنی تعلق اور دلی لگاؤ اتنا زیادہ تھا کہ اگر احقر کچھ عرصہ پہلے خانقاہِ سراجیہ کندیا شریف(ضلع میانوالی) کے سجادہ نشیں حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب قدس سرہ سے بیعت نہ ہوگیا ہوتا جو اعلیٰ حضرت مولانا ابو السعید احمد خاں صاحب قدس سرہ کے خلیفہ تھے تو میں حضرت شیخ موصوف سے ضرور بیعت کرلیتا لیکن ان دونوں نہروں کا سرچشمہ ایک ہی تھا، دونوں سلسلے ایک جلالی بزرگ حضرت مولانا خواجہ سراج الدین صاحب موسی زئی شریف سے جا ملتے تھے اور یہ اپنے والد بزرگوار حضرت خواجہ محمد عثمان صاحب قدس سرہ کے واسطہ سے شیخ سلسلہ حضرت خواجہ حاجی دوست محمد صاحب قندھاریؒ سے وابستہ تھے، ان سب حضرات کے مزارات اسی موسیٰ زئی شریف تحصیل کلاچی ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں میں موجود ہیں بلکہ بلکہ یہاں خواجہ احمد سعید صاحب کا تسبیح خانہ بھی موجود ہے۔ جہاں ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی کے بعد آپ دہلی سے ہجرت کر کے کچھ عرصہ کے لیے ٹھہرے تھے، آپ حضرت بانی سلسلہ مجددیہ حضرت امامِ ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہ کے پوتے تھے، آپ کا بھی فتویٰ تھا کہ انگریز کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے اور جب انگریزوں نے آپ نے آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں اب بھی میرا یہی فتویٰ ہے، انگریز دانت پیستا رہا مگر فوجوں میں بغاوت کے ڈر سے حضرتؒ کو شہید نہ کیا بلکہ نکل جانے کا حکم دیا، خواجہ سراج الدین صاحبؒ قدس سرہ کا یہ سلسلہ فیض عرب و عجم کے دور دراز ممالک تک پھیلا ہوا ہے، مدینہ منورہ میں رہنے والے بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔( جو اب وفات پا چکے ہیں۔ انا للہ و نا الیہ راجعون!) ہمارے شیخ غورغشتویؒ حضرت شیخ مولانا حسین احمد صاحب قدس سرہ (واہ بھچراں ضلع میانوالی) کے خلیفہ مجاز ہیں، جو بقول قطبِ زماں حضرت مولاما احمد علی لاہوری صاحبؒ کے پنجاب کے اکابر الیاء میں سے تھے۔
حضرت شیخ الحدیثؒ کا جذبہ جہاد
حضرت شیخ ؒ ظاہری و باطنی علوم و معارف سے آراستہ تھے۔ عوامی نگاہ میں وہ ایک بہت بڑے عالم تھے۔ تشنگانِ علوم کی نظر میں وہ ایک اعلیٰ مدرس اور بلند پایہ شیخ الحدیث تھے۔ اور اربابِ معانی ان سے سلسلہ نقشبندیہ کے فیوض و برکات کے آبدار موتیوں سے جھولیاں بھرتے رہے۔ دور دراز کے کتنے ہی فارغ التحصیل علماء ان سے وابستہ ہوکر منازلِ سلوک طے کرتے رہے۔
مگر باوجود ان مشاغل کے آپ پر جذبہ جہاد غالب تھا۔ جب کسی باطل کے مقابلہ کا وقت آتا، آپ سب سے پہلے میدان میں آکر سینہ سپر ہوجاتے۔ چنانچہ 1953ء کی تحریک ختمِ نبوت میں آپ کی علم داری سے کیمبل پور کے لاتعداد مسلمانوں نے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کیا۔ جتنے علماء اس علاقہ چھچھ سے جیل میں گئے، اتنے اور کسی علاقہ سے نہ جاسکے۔ اسی طرح الیکشن میں آپؒ نے سرمایہ داروں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
جب مودودی فتنہ نے سر اٹھایا، آپ نے سب سے پہلے اس کی سرکوبی فرمائی اور مودوی صاحب کو” ضال اور مضل یعنی گمراہ اور گمراہ کرنے والا” کہہ کر فتویٰ دیا کہ اس کے اور اس کے ہم خیالوں کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔ آپ موودوی کی اس عبارت سے بہت متاثر تھے جو تفہیمات حصہ دوم کے بابِ تعزیراتِ اسلامی میں لکھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ” مردوں اور عورتوں کے خلط ملط کے زمانہ میں زناء کی شرعی سزا جاری کرنا بلا شبہ ظلم ہے”۔ قرآنی سزا کو ظلم کہنے کو حضرت قطعی کفر فرماتے تھے اور بات بھی یہی ہے اگر مودوی صاحب کے لیے تاویل کی گنجائش نہ ہوتی تو حضرت مولانا کا فتویٰ صاف تھا۔
ملک میں موجودہ بے دینی کا احساس کرکے بھی حضرت کڑھتے رہتے تھے اور اکثر جمعیت علمائے اسلام کے مقاصد کی کامیابی کے لیے شرکت و تعاون کے علاوہ دعائیں بھی فرماتے۔
مسائل میں راہِ اعتدال
ملک میں بعض لوگ افراط کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض تفریط کا، اس طرح مسلمانوں میں اکثر فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ حضرت شیخؒ کو اللہ تعالیٰ نے معتدل طبیعت بخشی تھی۔ وہ احادیثِ شریفہ کی رو سے حیات النبی ﷺ کے اور قبر مبارک میں قریب سے درود شریف سننے اور جواب دینے کے، احادیث کی وجہ سے قائل تھے۔ مگر امت میں انتشار سے بچنے کی خاطر تفاصیل میں جانا پسند نہ فرماتے تھے۔ چنانچہ اسی طرح کی گفتگو احقر کے ساتھ بالمشافہ بھی ہوئی۔
اس راہ اعتدا کی دوسری مثال مولوی محمد طاہر صاحب پنج پیری کی مخالفت ہے۔ جن کی تغلیظ اور سختی اور علماء کرام پر تنقیدیا تنقیص سے علاقہ بھر میں انتشار پیدا ہوا، یہاں تک کہ حضرت شیخ نے اہلِ حق علمائے کرام کو بھی موتیٰ کے مسائل میں نرمی کرنے پر آمادہ کرنا چاہا۔
آپ نے فدیہ اسقاط وغیرہ کے بارے میں جواز کا فتویٰ دے کر دراصل علمائے اہلِ سنت کو اصلاحی کاموں میں تعاون و سہولت کا سبق دیا، ورنہ حضرت شیخؒ کسی بدعت کو جائز اور کسی گمراہی کو درست نہیں کہتے تھے۔ آپ کا مطلب صرف یہ تھا کہ دعائیں یا فدیہ یا حیلہ اسقاط اصل شریعت میں جائز ہیں، ان کو مطلقا برا نہ کہا جائے اور اگر مخصوص طریقہ کو برا کہا جائے تو اس میں ایسی شدت اور طریقہ ِتبلیغ نہ اختیار کیا جائے جس سے نفع سے زیادہ نقصان ہو۔ اگر کوئی شخص کسی مستحب یا مباح کو واجب یا فرض قرار دے اور اس کے تارک کو اس طرح ملامت کرے جیسے تارکِ فرائض و واجبات کو اور اگر بالفرض مختلف علماء اپنے مسالک کو نیک نیتی سے صحیح سمجھ کر ان پر قائم ہیں تو بھی ان کی وجہ سے آپس میں سرپھٹول اور اہلِ علم میں بدنمائی نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ وقت بڑا نازک ہے، آج نفسِ اسلام بچانا اچھا خاصا مشکل ہے۔
بہرحال حضرت شیخ ؒکو اللہ تعالیٰ نے اعتدال اور قصد السبیل کی نعمت بخشی تھی اور اسی لیے تمام صلحاء اور عوام یکساں آپؒ کی عزت کرتے اور آپ سے فائدہ اٹھاتے رہے۔
علمائے چھچھ اور آپؒ کا مقام
علاقہ چھچھ: سرحد و پنجاب میں علم کا گھر تھا، یہاں زمانہ دراز تک مختلف مقامات پر علومِ شرعیہ عربیہ کے درس جاری رہے۔ شاید پاکستان و ہندوستان کا کوئی بھی خطہ ایسا نہ ہوگا جو اتنا محدود ہو کر کو ہزاروں طلبہ اور علماء کا مسکن ہو۔ طالبانِ علم کے لیے اس خطہ میں کشش تھی۔ یہاں کے امیر و غریب مسلمان بھی علم دوست اور دینداری میں ناواقفیت کی وجہ سے یہاں کے اجل علماء سے کم واقف ہوں ، مگر غورغشتی کی شہرت تھی۔
یہاں حضرت مولانا قطب الدین صاحبؒ ایک عالمِ اجل تھے، ان کا درس بھی مشہور تھا اور ساتھ ہی حضرت شیخؒ کا درسِ حدیث تھا، جو دورہِ حدیث کے نام سے مشہور تھا۔ کم و بیش ایک صد شائقین کلامِ نبوی ﷺ ہر سال یہاں سے سیراب ہوتے تھے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ علمِ حدیث کا چرچا پٹھانوں کے تمام ملکوں میں آپ ہی کی ذات سے ہوا تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ حتیٰ کہ آپ کا اسمِ گرامی مولانا نصیرالدین کی جگہ شیخ الحدیث ہی مشہور ہوگیا تھا۔
حضرت مولانا عبدالرحمٰن قدس سرہٗ
چھچھ ہی میں میرے شفیق استاد حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحبؒ بھی تھے۔ آپؒ قصبہ بہبودی کے بہت اونچے صاحبِ علم و کمال تھے اور باوجود علمی کمالات کے طبیعت نہایت متین اور سادہ پائی تھی۔ بے ضرورت کلام نہ فرماتے۔ آپؒ کی عمر کا بیشتر حصہ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں گزرا۔ جہاں میں نے ایک سال میں آپ سے شرح وقایہ اولین، شرح تہذیب اور قطبی پڑھی، آپ بعد میں وہا ںدورہ حدیث پڑھاتے رہے۔ آپ کا روحانی تعلق حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانویؒ سے تھا۔ جن سے آپ کو خلافت بھی حاصل تھی۔ اس لیے آپ کے دو گونہ فیض شریعت و فیضِ طریقت سے عوام و علماء سیراب ہوتے رہے۔ اٰہ! آج چھچھ میں ان تینوں میں بزرگوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں۔ ان کی صالح اولاد ان کا صدقہ جاریہ ہے۔ اور ان کے ہزاروں تلامذہ ان کے دینی مشن کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ
ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما
اللہ تعالیٰ ان بزرگانِ دین کے طفیل ہم پر رحمت فرمائے اور ہمیں جنت میں ان کی معیت نصیب فرمائے۔ دین کا بول بالا اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لیے جہاد اسی طرح جاری رہے۔ آمین