Open Menu

شیخ الحدیث مولانا غورغشتویؒ کی رحلت

اپنے وقت کے شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کا شیخ المحدثینؒ کی تدفین کے بعد قبر پر کلماتِ تعزیت

          حضرت شیخ الحدیث محدثِ کبیر مولانا عبد الحقؒ بانی دارالعلوم اکوڑۃ خٹک نے امام المحدثین شیخ الحدیث مولانا نصیرالدین غورغشتویؒ کی نمازِ جنازہ اور تدفین مؤرخہ 4 ذیقعدہ 1388 ھ بمطابق 23 جنوری 1969ء کے بعد غورغشتی میں سوگواروں کے عظیم الشان مجمع میں خطاب فرمایا۔ اور اب یہ تعزیتی کلمات شاملِ خطبات کئے جا رہے ہیں۔ (س)

نحمده ونصلى على رسوله الكريم أما بعد قَالَ رَسُولُ اللَٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “عَنْ أَنَسِ قَالَ لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا لَا يُحَدِّثُكُمْ أَحَدٌ بَعْدِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَقِلَّ الْعِلْمُ وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ وَيَظْهَرَ الزِّنَا وَتَكْثُرَ النِّسَاءُ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ.” ( البخارى:ح 1531)

مسلمانان عالَم کو عظیم صدمہ

محترم بزرگو! آج تمام پاکستان بجھ گیا، آج مسلمانانِ عالم یتیم ہوگئے۔ اس سال حضرت مولانا رحمہ اللہ نے حج کا ارادہ کرلیا تھا، حج میں یہی ہوتا ہے  کہ اللہ کا عاشق، اپنے محبوب کے درو دیوار کے طواف کے لیے حاضر ہوتا ہے، اُس مقام پر خداوند تعالیٰ کے تجلیات کا ظہور ہے، جیسا کہ آئینہ کو آفتاب کے سامنے رکھیں تو شعاعیں اور اس کا اس  میں آجا تا ہے اور ان شعاعوں میں روشنی بھی ہوتی ہے اور اس طرح آئینہ میں بندے کا عکس بھی پوراآتا ہے۔ اللہ تو مکان سے منزہ ہے، مگر خانہ کعبہ پر تجلیاتِ خداوندی پڑتے ہیں جیسا کہ آئینہ میں سورج کی شعاعین منعکس ہوجاتی ہیں، اگر آئینہ کسی آنکھ کے سامنے آجائے تو آنکھ دیکھنے کی تاب نہیں رکھ سکتی تو ایک انتہائی منزل، عبادات میں سے حج کی منزل ہے، اللہ جل شانہٗ مالک الملک ہیں، نفع اور ضرر اس کے جانب سے ہے تو عبدیت اسی ذات کا حق ہے جو کہ ضرور و نفع کا مالک ہو۔

نماز میں خشوع و خضوع

          نماز میں انتہائی خشوع ملحوظ رکھنا چاہیے اس لیے کہا گیا ہے کہ نمازوں میں نظر اِدھر اُدھر پھرانا اختناس الشيطٰن ہے، نماز میں بلا ضرورت حرکات اچھے نہیں۔ غرض یہ کہ بندگی کے لیے جو حدِ ادب چاہیے وہ نماز کے اندر ہے، کبھی جھکتا ہے اور کبھی پیشانی زمین پر رگڑتا ہے، حدیث میں ہے کہ “بند اس وقت اللہ کے قریب تر ہوجاتا ہے جبکہ وہ نماز میں سجدہ ریز ہوتا ہے ، دعوات تستجب”۔ غلام کا امتحان ہوتا ہے کہ آقاکا کتنی ادب کرتا ہے جب معلوم ہوجائے کہ تابعدار ہے تو آقا اس سے  خوش ہوتا ہے، اگر آقا کہیں سفر پر جاتا ہے تو مالک اس غلام کو رقم دیتا ہے کہ اسے میری مرضی کے مطابق خرچ کرتے رہو تو جہاں﴿ أَقَامُوا الصَّلَاةَ ﴾ وہاں﴿ آتَوُا الزَّكَاةَ ﴾ ہے تو یہی عجیب نکتہ ہے کہ جو  غلام وفادار ہوگا اللہ اسے خزانچی بھی بنائے گا۔ صلوۃ کا نتیجہ زکوۃ ہے کہ مانگنے والا دینے والا بن جاتا ہے، ارشادِ خدواندی ہے﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴾(العنكبوت: ايت 45) ۔

          حکیم جو نسخہ بتلائے اور مریض اسے استعمال نہ کرے، پرہیز نہ کرے تو یہ نسخہ کا نقصان نہیں خود مریض کی ہلاکت ہے، حدیث میں کہ ” بدترین شخص نماز نہ پڑھنے والا ہے”۔ کافر اللہ کا وفادار نہیں، عبدیت کا اظہار نہیں کرتا اس لیے اس کے ساتھ جہاد کا حکم ہے۔

روزے کا حکم

          اس کے بعد روزے کا حکم ہے، دنیا میں جمال ، علم اور وقت یہ خدا کی ہی دی ہوئی ہیں، اللہ دینے والا ہے اس کے پاس کتنے خزانے ہوتے ہیں، ہم صرف کسی نفع اور ضرر کی وجہ سے تابعداری نہیں کرتے، بلکہ عشق اور محبت سے کرتے ہیں، بچوں کے والدین ان کی خدمت محبت کی وجہ کرتے ہیں، نہ کہ نفع کی لالچ سے۔ تو میرے بھائیو! اللہ نے پہلے مسلمانوں کو نماز کا، پھر زکوۃ کا پھر روزے کا حکم دیا، عاشق مجازی اپنے وقت پر اپنی ضرورتیں چھوڑ دیتا ہے، کھانا پینا رہ جاتا ہے، جو خدا کا عاشق ہوجائے تو پہلی منزل ترکِ اکل و شرب و ترکِ شہوات ہے، فرمایا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:”الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ” (البخاری:ح،7392)

          پورا مہینہ اللہ کی رضا کے لیے وقف کردیتا ہے، رمضان میں سارا مہینہ عبادات کے لیے ہوتا ہے، اُس میں دس دن اعتکاف کے لیے ہیں گھر بار، آرام و راحت اور بیوی بچے ترک کردیتے ہیں، عشق بڑھتا چلا گیا تو رمضان کے فوراً بعد حج کے دن شروع ہوجاتے ہیں، تجلیات کا انعکاس شروع ہوا تو تڑپنے لگتا ہے کہ محبوب کے در تک پہنچ جاؤں تو حکم ملا کہ کعبہ شریف اور مکہ مکرمہ میں چلے جاؤ۔ بھائیو! جب یہ معلوم ہوا کہ محبوب عشق میں تڑپنے لگا تو دیدار کے لیے بلایا گیا تو عاشق نے ارادہ کرلیا کہ حج کے لیے چلا جاؤں۔

          یاد رکھیں کہ حقیقی عاشق تمام چیزوں سے پرہیز اور لاتعلقی ظاہر کرتا ہے۔ میقات پہنچتے ہی آدمی مجنون بن جاتا ہے، محبت کی وجہ سے آرائش و زیبائش ترک کردی، احرام میں سب کچھ ترک کرنا پڑا۔ ( یہاں خطاب کے دوران عصر کی آذان ہوئی)

ع        کار عاشق خون خود برپائے جاناں ریختن

اللہ کا عاشقِ زار

          ہمارے شیخ حضرت غورغشتویؒ نے ارادہ کرلیا تھا کہ میں حج کے لیے چلا جاؤں، حضرت شیخ کو جب کہا گیا کہ آپ نہ جائیں آپ بیمار پڑے ہوئے ہیں، چلنا، پھرنا مشکل ہے نفلی حج ہے تو فرماتے تھے: کہ ہرگز نہیں میں ضرور جاؤں گا۔ حضرت شیخ اللہ کے عاشقِ زار تھے، انہوں نے رادہ کرلیا تھا کہ تکالیف اٹھا کر درِ محبوب پر پہنچ جاؤں، لیکن اللہ کی قدرت دیکھئے! کہ اللہ نے چاہا کہ تم کو میں یہاں ہی رحمتوں کی گود میں لے لیتا ہوں، موت کے بعد حقیقی حج میسر ہوا، یہاں اللہ نے ان کو حقیقی حج سے نوازا الموت جسر يوصل الحبيب الى الحبيب، اللہ کروڑوں رحمتیں ان پر نازل فرمائے۔

          لیکن حضرت شیخ نے 60، 70 برس حدیث کو پڑھایا ہے اور اس ملک میں احادیث کو زندہ فرمایا : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي فَلَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيدٍ “۔ (أمالي ابن بشران،ج1،ص،218، دار الوطن، الرياض) حضر شاہ ولی اللہؒ نے حجاز سے دہلی آکر صحاح ستہ کو زندہ کرلیا اور ہماری شیخ کے زمانہ میں صوبہ سرحد و پنجاب اور کابل کے مدارس میں احادیث کی ترویج ہوئی، اب یہاں جو احادیث پڑھائی جاتی ہیں، یہ حضرت شیخ کی برکت ہے۔ ہمارے صوبہ سرحد اور افغانوں کے شاہ ولی حضرت غورغشتویؒ ہیں، شاگروں کا جو اجر ہے وہ بھی ان کو ملے گا۔ سب سے پہلے زندگی میں علوم ِ ظاہری کا فیض پہنچا، آخری سالوں میں علومِ باطنی کا فیض بھی پہنچا رہے تھے۔

          حضرت کی شفقت میرے ساتھ بہت زیادہ تھی، حضرت غوغشتویؒ کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے: ” مجھے صدمہ تھا کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں یہ سلسلہ رک نہ جائے، لیکن مولانا عبدالحق نے میری جگہ سنبھال لی، یہ سلسلہ فیض و برکت اور روحانیت کا جاری رہے گا”۔ ( یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا)۔ مجھے یقین ہے کہ حضرتؒ کا فیض تا قیامت جاری رہے گا۔

دعا

          یا اللہ! ان کی قبر کو باغیچہ جنت بنادے، اللہ ان کی اولاد میں یہ سلسلہ جاری رکھے، اللہ اس خاندان کا سلسلہ علم اور سلسلہ تزکیہ نفوس قیامت تک جاری رکھے۔ (آمین)

(یہ دعا حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق قدس سرہ نے تقریر کے اختتام پر فرمائی)

ؒاز حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق صاحب

!مزید مضامین و کالم پڑھیں

چیٹ اوپن کریں
مدد چاہیئے ؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ہمارے ادارے سے متعلق کسی قسم کی معلومات کے لیے بزریعہ واٹس ایپ رابطہ کریں۔