خاتم المحدثین فی عہدہ، زبدۃ الکاملین، ابوذر زمانہ شیخ الحدیث مولانا نصیر الدین غورغشتویؒ کی وفات حسرت آیات کو نصف صدی ہو چلی ہے، مگر آپ کی علمی و روحانی خدمات جلیلہ کی دلنواز خوشبو ابھی تک ایک وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ نے سلوک و ارشاد اور حدیث شریف و تفسیر میں آپ سے تو مجددانہ کام لیا ہے، اس عصر میں کوئی آپ کا سہیم و شریک نظر نہیں آتا، پاکستان کے دو صوبوں اور افغانستان کے ان علاقوں پر جہاں پشتو بولی جاتی ہے آپ کا احسان عظیم یہ ہے کہ حدیث مبارکہ کی درس و تدریس کا سرگرم سلسلہ آپ کی برکت سے شروع ہوا، یہ علاقہ منطق، فلسفہ، ہیئت اور ریاضیاتی علوم کے حوالے سے بہت مشہور تھے مگر حدیث مبارکہ کے ساتھ اشتغال میں بہت کمی تھی۔
حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ نے حدیث مبارک عمدۃ المحدثین قاضی قمر الدین صاحب چکڑالویؒ سے پڑھی تھی اور تفسیر امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی صاحب واں بچھرویؒ سے، اپنی بیعت کا واقعہ خود بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے سلوک کی طرف میرے استاذ اور مرشد حضرت مولانا حسین علی صاحبؒ نے متوجہ فرمایا، اپنے پیر و مرشد، فخرِ خاندان نقشبند، سراج السالکین حضرت خواجہ سراج الدین موسیٰ زئی شریفؒ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا “میاں نصیر الدین! ان کا دامن پکڑ لو اب اس زمانے میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے” چنانچہ حضرت غورغشتویؒ نے پہلی بیعت حضرت خواجہ سراج الدین صاحبؒ سے کی اور ان کی وفات کے بعد ان کے استاذ اور خلیفہ (جی ہاں! استاذ اور خلیفہ اور یہ تصوف کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ استاذ اپنے شاگرد سے بیعت ہو، اس سے خلافت پائے اور پھر اس کا سلسلہ چلائے) حضرت مولانا حسین علی واں بچھرویؒ سے بیعت ہوئے اور ان سے اجازت و خلافت پائی، حضرت مولانا حسین علی صاحبؒ کی وفات کے بعد ان کی علمی و روحانی مسند کے بالاتفاق جانشین اور وارث سمجھے گئے۔
علاقہ چھچھ علم و ہنر کا بڑا قدیم گہوارہ ہے، برصغیر پاک و ہند کے علماء نے یہاں زانوئے تلمذ طے کیا ہے “غورغشتی” بھی اسی علاقے کا ایک قصبہ ہے، شیخ الحدیث مولانا نصیرالدین صاحبؒ کی وجہ سے اب عالمگیر شہرت کا حامل ہے، آپ اسی قصبہ کی ایک چھوٹی سی مسجد میں مکمل دورہ حدیث شریف تنہا پڑھاتے تھے اور آخر عمر تک باوجود پیرانہ سالی کے کمال استقامت سے تنہا پڑھاتے رہے، دور دور سے طلبہ حدیث شریف پڑھنے “غورغشتی” آیا کرتے تھے اور دارلعلوم دیوبند کے بعد دوسرا بڑا دورہ حدیث کا مجمع یہاں ہوتا تھا، پختونخواہ، بلوچستان اور افغانستان نے غورغشتی سے بڑا فیض پایا اور اس زمانے کے سارے جید اور راسخ العلم علماء یا تو دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہوا کرتے تھے یا غورغشتی کے۔
از حضرت مولانا مفتی عدنان کاکاخیل صاحب