Open Menu

دَیدہ ور از مولانا محمد امین صاحب اورکزئی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

سیدی ومولائی حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو آسمانِ معرفت  کے ایک درخشندہ اور ممتاز ستارے تھے۔ جو غورغشتی کے مطلع سے جلوہ نما ہوئے اور ایسے دور میں کہ جس میں الحاد و زندقہ، شرک و بدعت، جہالت، ضلالت کی نوع بنوع ظلمات تہ بہ تہ جمی ہوئی تھیں۔ تقریبا ساٹھ سال تک رشد و ہدایت اور علم و معرفت کی روشنی پھیلاتے رہے اور اآخر کار پانچ ذیقعدہ جبکہ ظاہر سورج طلوع ہورہاتھا۔ واہ کینٹ کے فوجی ہسپتال میں اس کا معنوی سورج غروب ہوگیا۔ آپ کی وفاتِ حسرت آیات علمی  اور روحانی حلقوں میں جو خلاء پیدا ہوا اس کو اکابرین وقت نے شدت کے ساتھ محسوس کیا اور مختلف پیرایوں میں اپنے جذباتِ غم کا ظاہر کیے۔ ہم جیسے بے حس لوگوں کو بھی یہ محسوس ہونے لگا کہ تقوی اور طہارت کے طالبین ایک خضر راہ سے محروم ہوگئے اور خصوصا سرزمین سرحد یتیم ہوکر رہے گئی۔ “موت العالِم موت العالَم” کا صحیح اور واضح نقشہ سامنے تھا۔

 پاکستان کے ممتاز دینی جریدہ “‘ ترجمانِ اسلام” میں خاص نمبر شائع کرنے کا عزم ظاہر کیا اور یہی اس سے متوقع بھی تھا، کیونکہ اسلاف کے ناموں کا تحفظ اور ان کے اسوہ حسنہ کی طرف دعوت اس کا مایہ افتخار نشان ہے۔ بندہ نے بار بار چند سطور لکھنے کا ارادہ کیا، مگر سیدی حضرت غورغشتویؒ کے اعلیٰ و ارفع مقام کو دیکھتے ہوئے حیائءمانع ہورہی تھی کے مجھ جیسا بے مایہ اور ظلوم و جہول حضرت کی شان میں کچھ لکھے۔ فأين الثريا من الثرى وأين الحذف من السهية۔کسی بھی چیز پر صحیح تبصرہ اس وقت کیا جاسکتا ہے جب کے تبصرہ نگار کو اس کے حدودِ اربعہ کا علم ہو ۔

آخر کار اس خیال سے کہ حق ادا کرنا اگرچہ ناممکن ہے، مگر حضرت ؒ کے ثناء خوانوں کی صف میں صرف جگہ ملنا ہی بڑی غنیمت ہے، یہ چند سطور بطورِ نذرانہ عقیدت حضرتؒ کی بارگاہ میں پیش کرنے کی جسارت کررہا  ہوں۔ حضرتؒ کی مثالی زندگی کا پورا نقشہ تو ان شاء اللہ تعالیٰ دیگراہلِ علم و فضل کے مضامین میں دکھائی دے گا، کیونکہ” انما يعرف ذا الفضل من الناس ذووه”۔ تاہم اپہی بساط کے مطابق چند گزارشات پیش خدمت ہیں، شاید رحمتِ حق کے میلا ن کا ذریعہ بن جائے تنزل الرحمة عند ذکر االصالحين۔

حضرت شیخ ؒ کی زندگی کے مختلف پہلو

حضرت شیخ ؒ روح الله تعالىٰ روحه  کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں اور ہر پہلے اپنے اندر کامل جاذبیت کی شان رکھتا ہے

کسی ادا پہ جان دوں تو بتا اے چشم یار!        ہر طرف کے دیکھتا ہوں ،حُسن کی تصویر ہے

          آپؒ اپنی ذات میں ا یک انجمن تھے، ایک ادارہ تھے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی ذات سے اللہ عزوجل نے وہ کام لیا جو ادارہ تو کیا چند ادارے مل کر بھی نہیں کرسکتے۔ علمی حیثیت سے دیکھیں تو ایک ہی وقت میں آپؒ محدث بھی تھے، مفسر بھی، فقیہ بھی تھے اور ماہرِ فنون بھی ۔ عملی حیثیت سے دیکھیں تو قرونِ اولیٰ کے قافلہ کے ایک راہ رو کا گمان ہو، جس کا قول و فعل سنتِ نبویہ ﷺ کے رنگ میں رنگا ہوا ہوتا ہے۔

 ایک شیخ طریقت کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ﴿ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴾ اور” اذا روو ذكر الله”  کی عملی تصویر نظر آتے تھے۔ شریعت غراء کے جادہ مستقیمہ پر ایسی استقامات جس کی مثال تلاش کرنے سے نہ ملے، وہ استقامت جو ولی اللہ کی حقیقی علامت ہوتی ہے۔ جس کے سامنے ہزاروں تکوینی کرمات محض پیچ ہوتی ہیں۔

 اخلاقی لحاظ سے آپ کا مطالعہ کریں  تواعتدال کا ایک نمونہ، جس میں جلال و جمال میں کا حسین امتزاج  ہو۔ آپ کی سادگی اور خلوصِ نیت اور تقوی و طہارت، زہد عن الدنیا، اقبال علی الاخرۃ جیسے خصائل کو دیکھ کر صحابہ کرا مضی اللہ تعالیٰ عنہم کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔

الغرض آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے کمالات کا ایک مجموعہ بنایا تھا۔ جن کا احاطہ زبان و بیان سے نہیں ہوسکتا

ولی تفنن واصفية بوصفه         يغنى الزمان وفيه ما لم يوصف

حضرتؒ کی شخصیت

واقفِ حال حضرات جانتے ہیں کہ حضرت مولاناؒ کی شخصیت پاکستان کے شمال مغربی حصہ اور قبائلی علاقہ اور افغانستان کے ایک وسیع خطہ کے لیے تقریباً وہی حیثیت رکھتی ہے جو کہ اہلِ علم کے لیے حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ کی ہے۔ حضرت مولاناؒ کی ذات بابرکات ہی کی وجہ سے یہ وسیع و عریض علاوہ احادیثِ نبویﷺ کی روشنی سے  روشناس ہوا  اور تقریبا ہر اہم قصبہ میں آپ کے فیض یافتہ لوگ پہنچ گئے۔ اس علاقہ پر آپؒ کا یہ وہ عظیم احسان ہے جو صدیوں تک فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

          اس کے علاوہ آپ کی روحانی فیض سے لاکھوں عوام متاثر ہوئے اور جاہلانہ رسوم اور بدعات کو خیراباد کہا۔ اور لاتعداد لوگ آپ کے دستِ حق پرست پر فسق و فجور کی زندگی سے کنارہ کش ہوکر بیعت ہوئے اور ہزاروں طالبان ِحق، وقت کے پیران ذلالت کے مہلک پنجوں سے نجات پاگئے۔ حضرت شیخؒ کی اصلاحی جد و جہد کے اثر کو دیکھ کر یہ یقین کیے بغیر چارہ نہیں کہ مذکورہ بالا خطے کے لیے آپ کا  مقام ایک مجدد کا مقام تھا۔ آپؒ کی وجہ سے بہت ساری سنن کا احیاء اور بہت ساری بدعات کا خاتمہ ہوا۔ توحید و سنت کی اشاعت جتنی آپ کی ذاتِ گرامی کی وجہ سے اس کا عشر عشیر بھی بعض نام و نہاد داعینِ توحید کے شور و غل سے نہیں ہوا، مگر باوجود اس کے  انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ  وقت کے اس عظیم محدث اور جلیل القدر مصلح، جس کی پوری زندگی سنتِ نبویہ ﷺ کی جیتی جاگتی تصویر تھی، کی طرف بھی بعض زبان درازوں نے ابتدا کی نسبت کی۔ یہ حضرتؒ کے روزِ روشن کی طرح واضح تجدیدی کام کو دیکھنے سے قاصر رہے:

وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ

ان حضرات کے پاس عجیب قسم کی عینکیں ہیں جن کو لگا کر سارے صلحاء امت العیاذ باللہ یا تو مشرک نظر آئیں گے یا کم از کم مبتدع۔  اور ان حضرات کی وسعتِ نظر کا یہ حال ہے کہ پورا دین کے ان کے نزدیک  محدودِ چند مسائل کا مجموعہ ہے، جن کے استحسان اور ابتدا میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔بہر حال یہ چند جملے اضطراراً اور دردِ دل کی وجہ سے تحریر میں آگئے، ورنہ اس قسم کے لوگوں کو معذور سمجھنا ہی انسب ہے۔ خصوصاً جبکہ ان کی حیثیت بھی ایسی نہ ہوکہ ان کی تنقید کی طرف توجہ دی جائے۔

وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

جیسا کہ عرض کیا گیا کہ حضرتؒ کی زندگی کے حسین پہلو ہیں۔  جن پر تفصیلی گفتگو کرنا نہ ہمارے بس کی بات ہے اور نہ یہاں اس کی گنجائش ہے ۔ کسی خوش قسمت کو حضرتؒ کی سوانح حیات لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی تو وہ ان پہلوؤں پر روشنی ڈال دے گا۔ ہم تو بس  اس قدر کہنے پر اکتفاء کرتے ہیں  

دامان نگہ تنگ و گل و حسن تو بسیار           گل چین بہار تو زداماں گلہ دارد

کمالات

حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کے کمالات میں سب سے نمایاں وصف جو ہمیں نظر آرہا ہے وہ خلوصِ نیت اور للہیت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو عبادت کی جان ہے۔ قرآن حکیم نے اس کی اہمیت جابجا واضح کی ہے۔ ارشاد ہے:

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ

اور فرمایا؛

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ

ارشاد نبویﷺ ہے؛

انما الأعمال بالنيات

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عبادات کا مدار خلوصِ نیت پرہے

اس لیے کہ ایک کامل بندہِ خدا کی زندگی میں یہ وعظ سرِ فہرست ہونا چاہیے۔ اور حضرت شیخؒ کے خصائل الخیر میں یہ وصف ہمیں اسی مقام پر نظر آتا ہے جس کا وہ مستحق ہے۔

 حضرتؒ نے کسی دینی خدمت پر کبھی معاوضہ نہیں لیا اور نہ کبھی اس بات کی کوشش کی  کہ آپ کی ذات کی کچھ تشہیر ہوجائے۔ آپ کو جو مقبولیتِ عامہ حاصل ہوئی وہ محض عند اللہ تھی، اور ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا﴾ کے وعدہ کی ایفاء کی صورت تھی۔ آپؒ کے ساتھ پہلے پہل خواص، اہلِ دین  اور اہلِ علم ہیں جنہوں نے تعلق قائم کیا۔ پھر عوام کے دلوں میں آپؒ کی محبت پیدا ہوئی اور یہی نشانی ہے کس شخص کے مقبول عند اللہ ہونے کی۔

آپؒ سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کی تعداد اتنی ہے کہ بلا مبالغہ مغربی پاکستان کے کسی بھی مدرسہ کے فضلاء کی تعداد اتنی نہ ہوگی، مگر اس اہم حقیقت کا ابھی تک بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ آپؒ شبانہ  روز جد و جہد سے افغانی قوم کی تعلیمی پالیسی میں انقلاب آیا، مگر اس مردِ خدا نے اشارہ تک کبھی  اس طرف نہیں کیا۔

          دووسری خصوصیت جو حضرت شیخ ؒکو عطا فرمائی گئی، وہ علمِ دین کے وسیع پیمانہ پر اشاعت ہے۔ ایامِ زندگی کا معتدد بہ حصہ اس اہم کام میں صرف ہوا اور تقریبا چالیس سال تک لوجہ اللہ تفسیر و حدیث اور فقہ اسلامی کا درس دیا۔ آپؒ کے حلقہ درس میں حاضرین کی تعداد تقریباً اتنی ہوتی تھی، جو اس وقت دارالعلوم دیوبند کے مشائخ عظام کے ہاں ہوتی تھی، باستثناء حضرت مدنیؒ ۔اور پھر درس بھی اپنی خداداد حدیثی اور فقہی ذوق کے ساتھ اسلاف کے طریقہ پر دیا۔ جس کی بناء پر ایک طرف اگرآپؒ کے فیض یافتگان کے قلوب میں اتباعِ سنت اور اجتناب عن البدعۃ کا جذبہ موجزن ہوا تو دوسری طرف یہ حضرات بے لگام بھی نہیں ہوئے، بلکہ احترامِ سلف اور ان کے بیان فرمودہ تشریحات کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا۔ الا من شذمنهم

          حضرت شیخؒ کی حدیث فہمی اور تفقہ کا کچھ اندازہ آپ ؒ کی تحریر فرمودہ حواشیِ مشکوۃ کے مطالعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بخاری پر شیخ الشیوخ حضرت مولانا احمد علیؒ کے حواشی قارئین کو دیگر شروح سے کافی حد تک مستغنی کردیتے ہیں، اسی طرح مشکوۃ المصابیح جیسی متداول کتاب کے قارئین کے لیے حضرتؒ کے حواشی کفایت کردیتے ہیں۔ بندہ کی نظر سے تفسیر بیضاوی کا ایک نسخہ گزرا، جس پر کسی صاحب نے حضرت شیخ کے درسی افادت درج کیے تھے، جس سے معلوم ہورہا تھا کہ آپ ؒ نے کس تحقیقی انداز اور بصیرت کے ساتھ تفسیر پڑھائی۔

          تیسری خصوصیت جو حضرت کے صحیفہ کے کردار میں عمیق نظر آرہی ہے۔ وہ آپ کے تقویٰ و طہارت سنتِ نبویہﷺ کی اتباع ہے۔ جن حضرات کا آپ سے قریبی تعلق رہا ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ  حضرت نہ صرف یہ کہ عبادات میں طریقہ مسنونہ کے پابند تھے، بلکہ اخلاق و عادات میں بھی سنتِ نبویہﷺ کا نہایت اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ راہ سنت پر چلنا آپؒ کا مزاج بن گیا تھا۔ تذکرۃ الرشید میں حضرت گنگوہیؒ کے حالات کا مطالعہ کیا تھا، اس کے بعد جب بھی حضرت کی قدم بوسی کا موقع ملا تو ان حالات کا حساً مشاہدہ کیا۔

          چوتھی امتیازی بات جو حضرت کی زندگی میں پائی جاتی تھی وہ دین حق کی سربلندی اور حفاظت کے لیے دل میں بے پناہ جذبہ اور تڑپ تھی۔ اعداءِ دین نے جب بھی کوئی سازش کی تو آپؒ نے نے علمائے حق کے شانہ بشانہ اس کے خلاف تحریک چلانے میں حصہ لیا۔ ماضی قریب کی مذہبی تحریکوں میں سب سے اہم تحریک سرورِ کائنات خاتم النبین ﷺ کے تاجِ ختمِ بوت کے تحفظ کے لیے چلی، جس پر انگریز کے پروردہ بعض لٹیروں نے حملہ کرنا چاہا تھا، اس تحریک میں حضرت نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ باوجود پیرانہ سالی اور ضعف کے بنفسِ نفیس مع اپنے صاحبزادے کے فرعونِ وقت کے ہاتھوں جیل کی صعوبتیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیں۔

اس طرح جب بھی موقع پیش آیا تو آپؒ نے کلمہ حق بلند کرنے سے گریز نہیں کیا۔ جمعیت علمائے اسلام جو سیاسی محاذ پر اہلِ حق کی سب سے بااثر اور نمائندہ جماعت ہے، آپؒ نے ہمیشہ اس کی سرپرستی کی اور متعلقین کو تعاون کی ترغیب دی اور زندگی بھر اس کی حمایت جاری رکھی۔ خود بندہ کے کانوں میں ابھی تک حضرت کی زبانِ فیض سے نکلے ہوئے یہ کلمات گونج رہے ہیں جو کہ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمائے : ” میں نے بندوق چلانا اس لیے سیکھا تاکہ جہاد کے لیے اس کو استعمال کرسکوں”۔

          سرحدی عوام کو گمراہ فرقوں کے شکار ہونے سے بچانے کے لیے آپؒ کا وجودِ مسعود اہم ترین ذریعہ تھا۔ آپ کے طفیل ماڈرن سبائیت جو ” مودودیت” کی شکل میں نمودار ہوئی، سرزمینِ سرحد میں اپنے قدم نہ جما سکی۔ اور اسی طرح آپ ہی نے جدید خارجیت کا راستہ روک رولیا تھا۔ جدال و نزاع سے طبعی نفرت کے باجود ان فتنوں کے متعلق اپنے خیالات کے اظہار میں کبھی تساہل سے کام نہ لیا، بلکہ واضح اور دو ٹوک فتویٰ دیا۔ مصلحتِ وقت کے پجاریوں کی طرح گول مول بات نہیں فرمائی۔

          ان تمام ظاہری اشغال کے ساتھ ساتھ حضرت نے تزکیہ اور ارشاد کا فریضہ بھی ادا فرمایا اور اپنے مرشد حضرت مولانا حسین علیؒ کے فیض کو عام کردیا، جو وقت کے ایک عظیم مجاہد، توحید و سنت کے داعی اور پاک باطن صوفی تھے۔ شرک و بدعت کے خلاف اس مردِ جلیل نے نہایت استقامت کے ساتھ جہاد کیا۔

          حضرت کی سیرت پر حسینی رنگ بالکل آشکار تھا۔ حضرت نے اپنے مرشد کے سلسلہ ارشاد کو زندہ رکھا اور بے شمار لوگوں نے آپ سے اکتساب فیض کیا اور بہت سے متوحش قلوب نورِ معرفت سے منور ہو کر حق تعالیٰ شانہ اور اس کے دین سے مانوس ہوئے۔ ظاہری علوم کے درس کا سلسلہ جب ضعف و نقاہت کی وجہ سے موقوف ہوا تو آپ ہمہ تن ذکر و فکر میں مشغول رہتے تھے، بتقاضائے   ؎

وعدہ وصل چوں شُد نزدیک     آتش عشق تیز تر گردد

          زندگی کے آخری سالوں میں محبوبِ حقیقی سے جا ملنے کا سخت داعیہ قلبِ اطہر میں تھا، حتیٰ کہ اگر کوئی درازیِ عمر کے لیے دعا کرتا تھا تو آپ اظہارِ خفگی فرماتے تھے۔ اسی جذبہ و شوق نے چند سالوں سے اپنے معشوق کے در پہ حاضری دینےکے لیے بے تاب کررکھا تھا، مگر گورنمنٹ کی غلط حج پالیسی راستہ میں رکاوٹ رہی۔ اس سال بعد ازانتظار بسیار منظوری ملی، مگر رب البیت نے اپنے آثار اور در و دیوار کے بجائے اس نحیف الجسم عاشق کو اپنی بقا سے نواز۔

 من احب لقاء الله احب الله لقائه انه بعباده لروؤف رحيم رحمه الله لقاء رحمة واسعة وانا علينا من بركته۔

!مزید مضامین و کالم پڑھیں

چیٹ اوپن کریں
مدد چاہیئے ؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ہمارے ادارے سے متعلق کسی قسم کی معلومات کے لیے بزریعہ واٹس ایپ رابطہ کریں۔